کلامِ متینی
درود ان کو ادب سے جو ہم سنانے لگے
وہ میرے فکر کی پاکیزگی بڑھانے لگے
نبی کی مدح سرائی کاجب خیال آیا
قلم،دوات بھی اپنا ہنر دکھانے لگے
انہیں نہ ہوگی میسر ذرا بھی بوئے جناں
جو رب کو چھوڑ کے پتھر پہ دل جمانے لگے
وہ ڈالتے گئے پردہ ہمارے عیبوں پر
خطائیں اپنی جو روکر انھیں بتانے لگے
کوئی نہیں تھا قیامت میں جو مدد کرتا
حضور آئے گنہگار مسکرانے لگے
تصورات کی دنیا میں گم ہوا جونہی
خیال یار سے آنکھوں میں اشک آنے لگے
نجوم و شمس و قمر کہکشاں ہوئے روشن
نبی کے تلوؤں کی خیرات جب سے پانے گے
دعا ہے رب سے یہی ہر گھڑی متینی کی
مدینے پاک سے نجدی بلا ٹھکانے لگے
شاداب متینی علیمی سدھارتھ نگری
مقیم حال واپی گجرات
0 تبصرے