پانچویں قسط:
محترم قارئین! پچھلی قسطوں میں ہم نے ”قافیہ“ ، ”حرفِ روی“ اور ”ردیف“ سمجھنے اور ان کی مشق کرنے کے بعد مقفّٰی جملے بنانے کی بھی الحمدللہ!
کافی مشق کرلی ہے
اب اس قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ وزن کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے۔
جی ہاں جناب… وزن اور قافیہ دو الگ الگ چیزوں کے نام ہیں، قافیے کے بارے میں تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں کہ شعر کے آخر میں جو باوزن الفاظ آتے ہیں انھیں قافیہ کہا جاتا ہے، جب کہ شاعری کی اصطلاح میں وزن قافیے سے ہٹ کر ایک دوسری چیز کا نام ہے۔
یوں سمجھ لیں کہ قافیے کا تعلق شعر کے مصرعوں کے صرف آخری لفظ سے ہوتا ہے، جب کہ وزن کا تعلق شعر کے ہر ہر لفظ سے ہوتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وزن کا تعلق شعر کے ہر ہر لفظ سے کس طرح ہوتا ہے؟ اور یہ وزن آخر ہے کیا چیز؟ گھبرائیے نہیں، ہم ان شاء اللہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ آسان انداز میں اس بات کو سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
دیکھیے… وزن دو کلموں کی حرکات و سکنات کے برابر ہونے کا نام ہے…
کیا کہا… نہیں سمجھ میں آیا…
اچھا… چلیں کچھ اور تفصیل سے اس بات کو سمجھتے ہیں… اب ذرا غور سے پڑھیے گا:
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں… وہ دونوں مصرعے گویا دو جملے ہوتے ہیں… جیسے:
اکرم نے اک بکرا پالا… لمبا ، چوڑا، کالا کالا
یہ پورا شعر ہے، اس میں دو مصرعے ہیں:
1۔ اکرم نے اک بکرا پالا
2۔ لمبا، چوڑا ، کالا کالا
ان دونوں مصرعوں کو غور سے دیکھیں، دونوں میں دو چیزیں ایک جیسی ہیں:
1۔ دونوں مصرعوں میں سے ہر ایک میں سولہ(16)حروف ہیں۔
دیکھیے: (1)ا (2)ک (3)ر (4)م (5)ن (6)ے (7)ا (8 )ک (9)ب (10)ک (11)ر (12)ا (13)پ (14)ا (15)ل (16)ا
(1)ل (2)م (3)ب (4)ا (5)چ (6)و (7)ڑ (8 )ا (9)ک (10)ا (11)ل (12)ا (13)ک (14)ا (15)ل (16)ا
2۔ دونوں مصرعوں میں سے ہر ایک میں آٹھ حروف متحرک اور آٹھ حروف ساکن ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ متحرک کیا ہوتا ہے اور ساکن کس بلا کا نام ہے؟
چلیں ہم آپ کو یہ بھی بتائے دیتے ہیں۔ متحرک اس حرف کو کہتے ہیں جس پر زبر، زیر یا پیش ہو اور ساکن اس حرف کو کہتے ہیں جس پر سکون ہو۔
یہ بات بھی آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اوپر لکھے ہوئے دونوں مصرعوں میں متحرک اور ساکن حروف کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلا حرف متحرک، دوسرا ساکن، تیسرا متحرک، چوتھا ساکن… اسی ترتیب پر دونوں مصرعے ہیں، یعنی ہر متحرک کے بعد ساکن آرہا ہے۔
اب یہ بھی سمجھ لیں کہ دو حروف جن میں سے پہلا متحرک ہو ، دوسرا ساکن ہو تو اس کو ’’ہجائے بلند‘‘ کہتے ہیں۔
جیسے: اَبْ…جَبْ… دِلْ…سَرْ… جَگْ… سِم…پَرْ… خَطْ…کَلْ وغیرہ۔
اب اس شعر کے پہلے مصرعے میں دیکھیں کہ آٹھ ہجائے بلند ہیں۔
اکرم نے اک بکرا پالا:
(1)اک (2)رم (3)نے (4)اک (5)بک (6)را (7)پا (8 )لا ۔
ایک مثال اور پڑھ لیں:
مرغی اپنے چوزے لائی…ککڑوں ککڑوں کرتی آئی
ان دونوں مصرعوں میں غور کریں اور خود ہی اپنی کاپی میں ان کے حروف الگ الگ کرکے لکھیں اور دیکھیں کہ اس شعر کے بھی ہر مصرعے میں آٹھ آٹھ ہجائے بلند ہیں … اور ہاں ’’ککڑوں‘‘ کے نون غنہ(ں) کو نہیں گننا، کیوں کہ نون غنہ(ں) مستقل حرف نہیں ہوتا۔
کام:
ایک ہجائے بلند،جیسے: کا، کی، کے ، پر، ہم، تم۔ آپ بھی ایسی تیس مثالیں لکھیے۔
دو ہجائے بلند ، جیسے: بکرا، مرغی، انڈا، بستہ، قلفی، گاڑی۔ آپ بھی ایسی بیس مثالیں لکھیے۔
ایک بات اور:
نون غنہ(ں) اور دوچشمی ہا(ھ)کو بالکل نہیں گننا، یعنی ’’ککڑوں‘‘ میں ’’کک‘‘ ایک ہجائے بلند اور ’’ڑوں‘‘ دوسرا ہجائے بلند ہے، اسی طرح ’’ہاتھی‘‘ میں ’’ہا‘‘ ایک ہجائے بلند اور ’’تھی‘‘ دوسرا ہجائے بلند ہے۔
اگر سمجھ میں نہیں آیا ہو تو اس قسط کو بار بار پڑھیں، انسان کوشش کرتا رہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے لیے آسانیاں پیدا فرماہی دیتا ہے
ان شاءاللہ عنقریب تقطیع حدائق بخشش بحر و اوزان اصول تقطیع اور عروضی تفصیل کے ساتھ منظر عام پر آئے کی آپ حضرات اس کا مطالعہ کریں گے
جامعہ ام سلمہ وجامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم و ام سلمہ جونٸرہاٸی اسکول دریاآاباد ضلع بارہ بنکی یوپی میں بچوں اور بچیوں کے داخلے کےلئے ان نمبرات پر رابطہ کریں موبائل نمبر .8009968910.8009059597
0 تبصرے