کچھ باتیں فن عروض کی
بارہ علومِ ادبیاتِ عربی میں سے علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ فلاں شعر یا کلام موزوں ہے یا ناموزوں؟ یعنی کسی مروّج بحر میں ہے یا نہیں؟
یوں سمجھ لیجیے کہ یہ علم منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور دیگر تمام علوم کی طرح اس علم کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے
اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا زمانہ دوسری صدی ہجری تھا انھوں نے عربی اشعار کو سامنے رکھ کر ان سے اوزان اور ممکنہ زحافات کا استخراج کیا اور اس علم کے ذریعے غلطیوں کے امکانات بہت حد تک کم ہو گئے
تلفّظ اور مبادیاتِ شعر
اس علم کی طرف پہلا قدم بڑھانے سے پیشتر ایک بات گرہ میں باندھ لینا ضروری ہے کہ یہ وہ ہُنر ہے جس کے جادُوئی دروازے کھولنے کے لئے ہمیں جو مَنتر درکار ہے وہ الفاظ کا تلفّظ ہے۔
عروض سیکھنے کے لیے یہ امر لازمی نہیں کہ آپ کو کسی لفظ کا صحیح تلفظ ہی معلوم ہو تو آپ اسے سیکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ غلط یا صحیح ، لفظ کا جو تلفظ بھی کریں اس کے بارے میں آپ کو پُر یقین ہونا چاہیے کیونکہ صحیح یا غلط ہونے سے زیادہ آپ کا پُر اعتماد ہونا زیادہ اہمیت کا حامل ہے
تلفُّظ ہی حروف کو حرکات عطا کرتے ہیں، پھر ایک لفظ اور لفظ سے جملہ تخلیق ہوتا ہے، ہر لفظ بحر کے رکن کا تعین کرتا ہے اور حرکات کی ہم آہنگی ہی ایک بحر کے مخصوص وزن میں ڈھلتی ہے اور یوں کوئی بحر وجود میں آتی ہے ۔
حرکت کیا ہے؟
حرکت وہ ہے جو ایک لفظ کا لباس ہے، یعنی زیر ، زبر ، پیش ، تشدید لفظ کے حروف کو متحرک کرتے ہیں جبکہ جزم اسے ساکن کرتی ہے . مــــثلاً :
اسماعیل ، ایک نام ہے جس میں الف کے نیچے زیر ، س پر جزم ، میم پر زبر ، الف ساکن ، ع کے نیچے زیر ، ی ساکن اورلام بھی ساکن –
اگر یہ حرکات موجود نہ ہوں تو اسماعیل کے بجائے اسے مختلف حرکات کا متحمل بنا کر ہر طرح سے پڑھا جا سکتا ہے، جس کا صَوتی تاثر بالکل مختلف ہوگا- لہٰذا طے یہ پایا کہ آپ جب بھی کسی لفظ کو اپنی شاعری میں استعمال کریں گے تو اس کے تلفظ کی باقاعدہ تحقیق کریں گے تا کہ آپ کا شعر وزن سے خارج قرار نہ پائے۔
لفظ حروف کی چھوٹی چھوٹی آوازوں کا مجموعہ ہوتا ہے جن کا اچھی طرح آپس میں مل جانا ہی ایک آہنگ ( وزن ) کو جنم دیتا ہے اور آہنگ کسی بھی شعر کے لیے لازمی ہے
شعر کیا ہے؟
شعر کی تعریف میں ہر طرح کی موشگافیاں کی گئیں ، کسی نے کہا کہ محض کلامِ مخيّل شعر ہے ، کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ، الغرض مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب “مقدمۂ شعر و شاعری” میں قافیے اور وزن کی قید کو شعر کی تعریف سے اڑا دیا ہے اور شعر کی تخلیق میں تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے :
1 : تخیُّل : یعنی وہ مرتّب مضمون جو ذہن میں پیدا ہو
2 : مطالعۂِ کائنات : اس سے مراد مضامین کا تنوُّع ہے ، یعنی کائنات کا مشاہدہ کر کے موضوعِ کلام اخذ کرنا
3 : تفحُّصِ الفاظ : الفاظ میں غور و فکر کر کے مطلوبہ خیال کے لیے خاص لفظ شامل کرنا
لیکن علمِ عروض کے ماہرین اور زیادہ تر شعراء کے قریب یہ سب تعریفیں موضوعی ہیں اور قابلِ قبول نہیں ہیں ، اگر محض تخیل یا جذبات ہی کو شعر کا معیار قرار دے دیا جائے تو پھر ہر پُر از تخیُّل اور پُر از جذبات جملہ چاہے وہ موزوں ہو یا نہ ہو ، مترنّم و ہم آہنگ (مقفیٰ) ہو نہ ہو یا قصداً کہا گیا ہو یا نہ ، بلا جھجھک شعر کہلائے گا اور ہم کسی معروضی معیار سے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ فلاں جملہ یا بات شعر ہے یا نہیں
شعر کی تعریف وہی درست ہے جو ابن رشیق نے کی ہے ، یعنی :
“شعر ایسا کلام ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو اور بالقصد (بالارادہ) کہا گیا ہو”
اس تعریف کی رو سے کسی بھی کلام کے شعر ہونے کے لیے تین معیار ہیں
1 — وزن : وزن سے مراد ہے کہ وہ شعر کسی مشہور بحر میں ہے یا نہیں؟
2 — قافیہ : اگر کلام مقفّىٰ نہ ہو تو وہ با وزن جملہ تو ہو سکتا ہے مگر شعر نہیں ، جیسا کہ عموماً گفتگو کے دوران ہو جاتا ہے
3 — قصد یا ارادہ : اس سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ زبر دستی طبیعت پر زور دے کر شعر کہلوایا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کلام چاہے آورد ( یعنی جو بالارادہ ذہن میں بنایا جائے ) ہو یا آمد ( یعنی وہ جو خود نازل ہو ) اس سے قصد شعر کا ہی کیا جائے .. ورنہ کئی قرآنی آیات ایسی ہیں جو کسی نہ کسی بحر میں موزوں ہو رہی ہیں . مثال کے طور پہ یہ آیات دیکھیے :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بحر سریع ، مفعولن مفعولن فاعلان
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الکَوثَرَ
بحر متدارک ، فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
لَن تَنَالُو البِرّا حَتّٰی تُنْفِقُوا
بحر رمل ، فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
تَاللّٰہِ لَقَد آثَرَکَ اللّٰه عَلَینَا
بحر ہزج ، مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ
بحر رمل ، فاعلاتن فاعلاتن فاعلان
ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰؤُلٓاءِ تَقْتُلُوْنَ
بحر رمل ، فاعلاتن فاعلاتن فاعلان
وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ
بحر متقارب ، فعولن فعولن فعولن فعولن
وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحٗتَسِبُ
بحر متقارب ، فعولن فعولن فعولن فعولن
اِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ
مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن
یَوْمَ التَّنَادُ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ
بحر مضارع ، مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا
بحر رمل مسدس سالم مخبون محذوف ، فاعلاتن فَعِلن فَعِلن
اسکے علاوہ ایک حدیث شریف کے الفاظ “لاحول و لا قوۃ الا باللہ” رباعی کا ایک خاص الخاص وزن ہے اور رباعی کے چوبیس اوزان یاد کروانے کی “بسم اللہ” اسی وزن سے کی جاتی ہے
مشرکینِ عرب قرآن کو شاعری بھی کہتے تھے حالانکہ نہ یہ شاعری ہے اور نہ ہی شاعری کی نیت اور ارادے سے کہا گیا ہے لہذا مسلمانوں کا ایمان تو ہے ہی لیکن اس تعریف کی رو سے بھی قرآن مجید کی موزوں آیات شاعری نہیں ہے کیونکہ “بالقصد” نہیں ہے یعنی خدائے تعالیٰ كا قصد اس سے شعر کہنا نہیں ہے
حروف کی باہمی شرکت :
ﺣﺮﻑ ﻭ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ اور تلفظ کی مباحث ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺣﺮﻭﻑ ﮐﯽ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺷﺮﺍﮐﺖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﺻﻄﻼﺣﯿﮟ سمجھ لیں، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ سمجھے ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﻋﻠﻢ اﻟﻌﺮﻭﺽ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺪﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔ لیکن ﺍن کے فہم ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ یہ بات ملحوظ رہے ﮐﮧ ﻋﺮﻭﺽ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺍﻣﻼء ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ
یاد رکھیے کہ جب ﺩﻭ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﺮﻭﻑ ﯾﺎ الفاظ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺷﻌﺮ ﮐﺎ ﺁﮨﻨﮓ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﮐﺮتا ہوں ، ﺍنھیں ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺫﮨﻦ ﻧﺸﯿﻦ ﮐﺮ لینا اد ضروری ہے
الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں :
1– مکتوبی
2– ملفوظی
ﻣﮑﺘﻮبی سے مراد ﻭﮦ ﻟﻔﻆ ﺟﻮ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﺜﺎﻝ کے طور پر : ﺧﻮﺍﺏ ، بالكل ، خود وغيره
ﻣﻠﻔﻮظى سے مراد ﻭﮦ ﻟﻔﻆ ﺟﻮ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ
مثال کے طور پر : ﺧﺎﺏ ، بِلــكُل ، خُد وغيره
یہ تقسیم اس لیے ذکر کی کہ اردو کے علاوہ دنیا کی ہر زبان میں یہ تقسیم موجود ہے .. مثال کے طور پر انگلش میں (Palm) یوں لکھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ہتھیلی ، مگر اس کی ملفوظی شکل (Paam) ہے یعنی “L” سائلنٹ ہو گیا .. اسی طرح (Knife) ایک لفظ ہے لیکن اسے (Nife) پڑھا جاتا ہے یعنی “K” کو حذف کر دیا جاتا ہے .. بعینہٖ عربی میں بھی یہ نظام موجود ہے .. مثلاً عربى میں تنوین لکھی جاتی ہے لیکن پڑھنے میں نون ساکن آتی ہے .. یعنی لکھا “دَرَجَةً” جائے مگر پڑھنے میں “دَرَجَتَنْ” آئے گا .. اسی طرح لامِ شمسی فقط لکھنے میں آتا ہے مگر پڑھنے میں نہیں .. جیسے عبد الظہور میں “ال” نہیں پڑھا جا رہا .. لامِ شمسی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ “ال” کے بعد حروف شمسیہ میں سے کوئی حرف آ جائے . حروف شمسیہ یہ ہیں “ت ، ث ، د ، ذ ، ر ، ز ، س ، ش ، ص ، ض ، ط ، ظ ، ن” .. ایسے ہی اردو شاعری میں بھی لکھے ہوئے لفظ سے زیادہ بولے گئے لفظ کی اہمیت ہے اور عروض و اوزان میں ملفوظی حالت ہی زیرِ بحث ہوتی ہے اور تقطیع بھی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے
امام الادب العربی شیخ خطیب تبریزی اپنی کتاب “کتاب الکافی فی العروض والقوافی” کے صفحہ نمبر 19 پر لکھتے ہیں کہ :
{ و تقطیعُ الشّعر علَی اللّفظِ دُونَ الخَطِّ . فما وُجد فی اللفظِ اعتدّ بہٖ فی التّقطیعِ وما لم یُوجد فی اللفظ لم یعتدّ به فی التّقطیعِ }
ترجمہ : “شعر کی تقطیع ہمیشہ بولی گئی شکل پر ہوتی ہے نہ کہ لکھی گئی صورت پر .. جو لفظ جیسے بولنے میں آئے گا ، تقطیع میں ویسا ہی شمار ہوگا اور جو بولنے میں نہ آئے وہ تقطیع میں بھی نہیں گنا جائے گا”
الفاظ کی مختلف تراکیب سے متنوُّع اصطلاحات جنم لیتی ہیں اور یہ حروف کی تعداد یا ترکیب کو سامنے رکھ کر وضع کی گئی ہیں .. ذیل میں کچھ ضروری تعریفات تحریر کی جاتی ہیں جن کا اس علم سے بہت گہرا تعلق ہے.
ﺳﺒﺐ :۔
دﻭ ﺣﺮﻭﻑ ﯾﺎ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺟﻮ ﻟﻔﻆ ﯾﺎ ﺟﺰﻭ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺳﮯ ﺳﺒﺐ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
سبب کی دو اقسام ہیں :
1 — ﺳﺒﺐ ﺧﻔﯿﻒ :۔
جس ﻟﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﺣﺮﻑ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺳﺎﮐﻦ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺳﺒﺐ ﺧﻔﯿﻒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ اور یہ ہجائے بلند کا پرانا نام ہے
ﻣﺜﺎﻝ– ﺩﻝ ، دو ، کا ، لب ، سب ، کج ، گی وغیرہم
ہجا کی دو اقسام ہیں :
ہجائے بلند : وہ دو حروف جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو۔ اسے ’’سبب خفیف‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی گزرا.
ہجائے کوتاہ : وہ ساکن جس سے پہلا حرف ساکن ہو یا وہ متحرک جس کے بعد والا حرف متحرک ہو۔
مثلاً : لفظِ “بیان” میں “ب” متحرک ہجائے کوتاہ ہے “یا” سببِ خفيف اور “ن” ساکن ہجائے کوتاہ ہے
ہجائے کوتاہ کو ہجائے قصیر اور ہجائے بلند کو ہجائے طویل بھی کہتے ہیں
2 — ﺳﺒﺐ ﺛﻘﯿﻞ :۔
ﺟﺲ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺮﻭﻑ ﻣﺘﺤﺮِّﮎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮯ ﺳﺒﺐِ ﺛﻘﯿﻞ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﻔﻆ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺮﻭﻑ ﺳﺎﮐﻦ ﯾﺎ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺳﺒﺐ ﺛﻘﯿﻞ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﻮ صفت یا اضافت کے ذریعے سے جوڑ کر ایک ﺗﺮﮐﯿﺐ بنا دی جائے ﻣﺜﻼ :۔
لبِ تشنہ — اس میں صفَت کے ذریعے “لب” کو “تشنہ” سے ملایا گیا ہے
لام متحرک تھا پہلے ہی ، باء کو صفت کے واسطے زیر دی گئی اور یہ “بے” بن گیا اور اس طرح یہ متحرک ہو گیا-
غمِ ہستی– اس میں اضافت کے ذریعے “غم” اور “ہستی” کا آپس میں جوڑا گیا ہے
غین متحرک تھی پہلے سے ہی ، میم کو اضافت کے لیے زیر دی گئی اور یوں یہی “غمے” بن گیا ، اور اس طرح میم متحرک بن گئی-
یاد رﮐﮭﺌﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺳﺒﺐ ﺛﻘﯿﻞ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﻮ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
اب آتے ہیں وتد کی جانب :
وتد (اس لفظ کا تلفظ ملاحظہ کیجئیے : واؤ پر زبر ، ت پر زبر ، دال پر جزم) تین حروف کے باہمی اتصال سے بننے والے لفظ یا اس کے جزو کو “وتد” کہتے ہیں۔
سبب کی جمع اسباب اور وتد کی جمع اوتاد ہے .. وتد کی تین اقسام ہیں
1—- وتد مجموع : ایسے تین حروف کا مجموعہ جس کے پہلے دو حروف متحرک اور تیسرا ساکن ہو. اسے وتد مقرون بھی کہتے ہیں یعنی دو حرکتیں اکٹھی آ گئی ہیں
اس کی مثال ہے : نَظَر ( اس کا تلفظ یہ ہے : ن پر زبر ،ظ پر زبر،رے پر جزم ) غور کریں پہلے دونوں حروف پر زبر ہے اور تیسرا ساکن ہے
2—- وتد مفروق : ایسے تین حروف سے بنایا گیا لفظ جس میں پہلا حرف متحرک ، دوسرا ساکن اور تیسرا پھر متحرک ہو. مگرایسا کوئی لفظ اردو زبان میں موجود نہیں ۔جو ساکن سے شروع ہو یا متحرک لفظ پر ختم ہو ۔ لہذا وتد مفروق کو سمجھنے کے لئے بھی وہی سبب ِثقیل والے طریق کو اختیار کی جا تا ہے کہ دو الفاظ کے درمیان کسرۂِ اضافت یا واؤ جسے واؤ عطف کہتے ہیں لگا دیا جاتا ہے –
اس کی مثالیں دو طرح کی ہوں گی :
بذریعۂِ اضافت اور بذریعۂِ عطف
اضافت کی مثال یہ ہے :
رقصِ بسمل ( اس کا تلفظ یہ ہے : رے پر زبر ، قاف پر جزم ، صاد کے نیچے زیر لگا کر اسے متحرک کر لیا تو اب یہ رقصے پڑھا جائے گا )
عطف کی مثال یہ ہے :
ناز و انداز ( اس کا تلفظ یوں ہوگا کہ : ن پر زبر،الف پر جزم،زے واؤ عطف کے ساتھ مل کر متحرک ہو گئی اور ایسے “نازُ” واؤ عطف کی جگہ اس پر پیش آگئی
کمال احمد صدیقی نے یہاں ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ عطف ہو یا اضافت , یہاں اشباع نہیں ہوگا . اشباع سے مراد زیر کی حرکت کو کھینر پڑھنا . یعنی نذرِ خلوص کو نذرے خلوص کہنا
لیکن قدیم و جدید شعراء نے اشباع کیا ہے اور اسے روا سمـــــجھا ہے اس لیے حتمی فیصلہ اِشباع کے عدم جواز پر قطعاً نہیں دیا جا سکتا
اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ وتد مفروق کبھی مصرع کے آخر میں نہیں آسکتا اس لیے کہ اردو میں ایسا کوئی لفظ نہیں جو متحرک حرف پر ختم ہوتا ہو
3 —- وتد مو قوف : اس سے مراد ایسے تین یا اس سے زائد حرفی الفاظ ، جن میں بظاہر پہلا حرف متحرک اور آخری دو یا تین ساکن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر : نَذر ، عَصر ، دَہر اور نشست ، زيست ، درخواست وغيره
یہ الفاظ کلاسیکی وتد نہیں کہلا سکتے۔ ان کے لئے وتد موقوف کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ کیونکہ وتد مفروق تو آپ ترکیب دے کر بنا لیتے ہیں لیکن ان مجرد الفاظ کو بھی کوئی نام دیا جانا چاہئے۔ اسی لئے انہیں موجودہ دور میں عروض کے ایک ماہر کمال احمد صدیقی نے وتد موقوف کا نام دیا ہے جو رائج ہو رہا ہے اور طالب علم کو تقسیم یاد رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ علامہ طباطبائی نے اس قسم کا شمار سبب کے زمرے میں سببِ متوسط کے نام سے کیا ہے ( بحوالہ : شرح غالب ، صفحہ 597 )
علامہ طباطبائی نے ایک اور وتد کا اضافہ کیا ہے .. وتد کثرت .. یعنی پہلے دو متحرک حروف پھر دو ساکن حروف .. مثال کے طور پر : نشان ، امیر ، کتاب ، خدنگ وغیرہ
یعقوب آسی صاحب نے [ اپنی کتاب “آسان عروض کے 10 اسباق” صفحہ نمبر 17 پر ] اس قسم کا نام سببِ طويل لکھا ہے اور یہ مثالیں بھی دی ہیں :
ثواب ، حنيف ، بہشت ، نفوذ ، وجود ، شہاب ، نشست وغیرہم
عروض کا سارا کھیل اسباب و اوتاد ( ان کی تعریفات آپ پڑھ آئے ہیں) ہی کا ہے اگر آپ نے انہیں اچھی طرح سمجھ لیا تو اگلی منزلیں آسان ہو جائیں گی ۔ایک اور بات کہ علم العروض کسی کو شاعر نہیں بنا سکتا ۔ شعر کہنے کی صلاحیت ہر لحاظ سے خدا داد ہے۔ خواہ یہ وہبی ہو یا کسبی ۔ علم العروض صرف یہ سکھاتا ہے کہ آپ نے اپنی شعری صلاحیت کو لباس کیا اور کیسے پہنانا ہے؟ جب ہم بحور کا سلسلہ شروع کریں گے تو وہاں یہ بھی بیان کیا جائے گا کہ وہ بحر کس کیفیت کے بیان کے لئے زیادہ موزوں ہے اور کیوں؟
ہم نے اب تک یہ دیکھا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ حروف کی حرکات مل کر ایک جزو یا رکن بناتی ہیں جن کی مختلف اقسام ہیں اور جنہیں عمومی طور پر سبب یا وتد کہا جاتا ہے ۔
اوتاد ( وتد کی جمع ) کے سلسلے میں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بھی شعر کے کسی بھی مصرع کے آخر میں صرف وتد مجموع اور وتد موقوف ہی آ سکتے ہیں وتد مفروق نہیں آ سکتا کیونکہ اس کا آخری حرف متحرک ہوتا ہے اور یہ صرف عربی کے ساتھ خاص ہے جيسے : قَالَ ، حَيثُ ، عَادَ ، لَاحَ وغيرهم
اگر آپ نے اسباب و اوتاد کی نوعیّت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو اب ہم فاصلے پر بات کریں گے جس کو چونکہ ایک اصول کے بطور بیان کیا گیا ہے اس لئے صرف عمومی اور علمی دلچسپی کے پیش نظر بیان کیا جا رہا ہے ۔ ورنہ شعر کے وزن کو تولنے کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
فواصل و اوتاد و اسباب
فاصلہ کی تعریف :
“جب سببِ ثقیل کے ساتھ سببِ خفیف یا وتد مجموع ملایا جائے تو فاصلہ حاصل ہوتا ہے”
فاصلے کی دو اقسام ہیں :
1–فاصلۂِ صُغریٰ :
ایک ایسا لفظ جس کے پہلے تین حروف متحرک ہوں اور آخری ساکن۔۔ اردو میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی لفظ یا تو عربی اور فارسی سے ہوگا یا اسے ترکیب دے کر ہی بنایا جا سکتا ہے –
مثلا : صاحبِ نَظَراں– اک ذرا توجہ سے دیکھئے– “نظراں” کے ن پر زبر ، ظ پر زبر اور رے پر زبر ہے جبکہ الف اور نون غنّہ آخر میں ساکن ہیں ۔ کیا آپ کے ذہن میں کوئی خیال آیا کہ فاصلۂِ صغریٰ کیا ہے؟ پہلے دو حروف کی وجہ سے سبب ثقیل اور آخری دو حروف کی وجہ سے سبب خفیف — نون غنہ “ں” کی اپنی کوئی حیثیت نہیں اور وہ شمار نہیں ہوگا-
تو فاصلۂِ صغریٰ اصل میں سبب ثقیل اور سبب خفیف کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی :
فاصلۂِ صغریٰ = سبب ثقیل + سبب خفیف
اس کا ایک نام کتب آہنگ اور عروض میں فاصلۂِ صَولت بھی ہے
2–فاصلۂِ کُبریٰ :
فاصلۂِ کبریٰ کی تعریف یہ ہے کہ پانچ حروف ، جن میں سے پہلے چار پر حرکت ہو اور آخری ساکن ہو .. اردو زبان میں اس کی بھی کوئی مثال نہیں البتہ عربی میں اس کی امثال موجود ہیں ۔ اردو میں مرکب الفاظ سے اس کی مثال سمجھ لیں کہ “رہِ صَبَا” — اس لفظ میں رے پر زبر ، ہاء کے نیچے زیر ، صاد پر زبر ، باء پر بھی زبر اور الف ساکن
یعنی :
فاصلہ کبریٰ = سبب ثقیل + وتد مجموع
اس کا ایک نام فاصلۂِ ضبط بھی ہے
“اسباب و اوتاد اور فاصلے “کو علم العروض کی زبان میں اصولِ سہ گانہ کہا جاتا ہے۔ انہیں سمجھے بغیر اس میدان میں ایک قدم اٹھانا بھی ناممکن ہے۔
سببِ خفيف ، سببِ ثقيل ، وتد مجموع ، وتد مفروق ، فاصلۂِ صغرىٰ اور فاصلۂِ كبرىٰ کو بالترتیب اس عربی جملے سے سمجھا جا سکتا ہے :
لَمْ اَرَ عَلىٰ ظَهْرِ جَبَلٍ ( جَبَلِنْ ) سَمَكَةً ( سَمَكَتَنْ )
اور سبب خفیف ، سببِ ثقیل ، وتدِ مفروق ، وتدِ مجموع ، فاصلۂِ صغریٰ اور فاصلۂِ کبریٰ کو بالترتیب اس فارسی جملے سے سمجھا جا سکتا ہے
از سرِ کوئے وفا قدمے نگزری
حروفِ علت :
ان سے مراد تین حروف ہیں ، واؤ ، الف ، یاء
انگریزی میں انہیں واولز کہا جاتا ہے ۔اردو میں یہ زبر ،پیش اور زیر کی حرکات کے قائم مقام ہیں۔
آئیے باری باری اب تینوں حروف کے احکام مختصراً پڑھتے ہیں
الف کا بیان:-
الف بطورِ پہلا حرف:-
الف سے شروع ہونے والا کوئی ایسا لفظ جو مصرع کے آغاز میں نہ ہو تو وہاں الف کا گرانا جائز ہے ۔اور ایسی صورت میں اسے الف موصولہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصرع کے آغاز میں آنے والی کوئی الف الف موصولہ نہیں ہو سکتی۔
مثلا:-
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس الف کو “س” کے ساتھ ملا کر یوں بھی پڑھ سکتے ہیں ، ہمُس کے ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
اس گر جانے والے الف کو الف موصولہ کہتے ہیں ۔اور توجہ سے دیکھئے کہ یہ دوسرے لفظ کا پہلا حرف ہے
ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ “ہم” کی ساکن میم کے ساتھ ہوا۔
الف بطورِ درمیانی حرف:-
سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگر الف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔۔ ذرا تصور کریں کہ اگر لفظِ “حال” کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظِ “حل” میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گایا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے. اسی طرح لفظِ جان ، سال ، دال ، وغیرہ ہیں
صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہ سے گنہ
سیاہ سے سیَہ
راہ سے رہ
تباہ سے تبہ
اور
سپاہ سے سپہ پڑھا اور لکھا بھی جاتا ہے
بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھیے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی ہیئت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔۔ مثلاً ایک لفظ ہے “کاہ” جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ “کہ” میں تبدیل ہوجائےگا جو وضاحت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ اس طرح کی صورت حال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔
اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ ، گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ، ہائے مختفی ”ہ“ کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔
الف بطور آخری حرف:-
اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مصدر کیا ہوتا ہے اور فعل کسے کہتے ہیں ۔۔ تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔
مصدر:-
کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔۔ جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے مشتق ہوتے ہیں ۔۔ اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ”نا“ آئے وہ مصدر کہلاتا ہے مثلا ً :
کرنا ، ہونا ، جانا ، کھانا ، پینا وغیرہ
فعل:-
اس کلمے کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا ہونا ، کرنا یا سہنا بہ اعتبارِ وقت پایا جائے مثلاً :
کِیا ، کرتا ہے ، کرے گا ، کرے ، وغیرہ
مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔۔ مگر جب آپ مشق کریں تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا -۔ اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
مصدر میں الف بطور آخری حرف کی مثالی یہ دیکھیں کہ
خاک بھی ہوتا تو خاکِ درِ جاناں ہوتا۔
اس مثال میں پہلا والا “ہوتا” مصدری لفظ ہے جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر “تتو” کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی : خاک بھی ہو تَ تو خاک در جاناں ہوتا۔ یعنیٰ ہوتتو — بن جاتا ہے
فعل میں الف بطور آخری حرف:-
مثلاً یہ جملہ دیکھیں کہ
“اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب”
اس میں بھیجا کا لفظ فعل کو ظاہر کر رہا ہے مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی “اس نےبھیجَ ہے مرے خط کا جواب
میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے
“واؤ” کا بیان:-
یہ حرف بنیادی طور پر پیش ُ کی حرکت کا قائم مقام ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا حرف ہے ۔جس کی کئی اقسام ہیں ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اس ایک حرف کی کئی اقسام کیوں ہیں ۔اگر ہم اس الجھن کا شکار ہو گئے کہ ایک حرف کی کئی اقسام کیسے ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اس کے بارے میں ہماری سمجھ کسی ٹھکانے نہیں لگنے والی تو اقسام سے مراد یہ ہے کہ یہ حرف ہماری زبان کے جس لفظ میں استعمال ہو ۔وہاں اس کی آواز کسی دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے ۔کیونکہ ہماری زبان بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔اس لئے جس زبان سے بھی ایک لفظ حرفِ “واؤ” کے ساتھ اردو میں آیا ہے ۔وہ اُس زبان کے لہجے کے مطابق یا تو اپنی آواز ساتھ لایا ہے یا پھر مقامی سطح پر اس نے اپنی الگ آواز اختیار کر لی ہے۔ان آوازوں میں امتیاز کرنے کے لئے علماے اردو نے ان کے لئے پانچ اصطلاحیں وضع کی ہیں ۔عمومی دلچسپی کے لئے میں ان اصطلاحوں یا اقسام کے نام لکھ دیتا ہوں :-
1- واؤ معدولہ
2واؤ معروف
3۔واؤمجہول
4۔واؤ لین
5۔واؤ عاطفہ
6۔واؤ مخلوط
چھ اقسام کے یہ واؤبارہ طریقوں سےاستعمال میں آتے ہیں ۔لیکن آپ کو اس ابتدائی سطح پر اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں- آپ فی الحال وہ سیکھئے جو میں سکھا رہا ہوں۔
1–اگر واؤسے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ واؤ نہیں گر سکتا ورنہ لفظ ہی غلط ہو جائے گا یا اس کے معنی بدل جائیں گے ۔مثلا اگر وقت کا واؤ ساقط کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا ۔اسی طرح لفظِ “وہم ” کو لیجئے ۔اگر و اؤساقط کر دیا جائے تو ہم بچے گا ۔جس کا وہم کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ جو لفظ حرفَ واؤ سے شروع ہو اس کا پہلا واؤکسی صورت نہیں گر سکتا
2–اسی طرح اگر حرفِ واؤ کسی لفظ کے وسط میں آئے تو اسے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً :
اگر قوم ، یوم ، بول کا درمیانی واؤ ساقط کر دیا جائے تو ان الفاظ کے معانی ہی بدل جائیں گے
3– کسی لفظ کے درمیان موجود صرف وہی واؤ تقطیع میں گرتا ہے جو لکھنے میں تو آئے مگر بولنے میں نہ آئے ۔جیسے لفظِ *خوشبو* میں، لفظِ *ہوئے* میں ، یا لفظِ *اور* میں جبکہ یہ عطف کے لیے ہو
4– آخر کلمہ یا لفظ کے ہر واؤ کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ وہ کہاں معیوب ہے یا ناگوار ہے۔لیکن اصول یہی سامنے رہنا چاہئے کہ اسے گرایا جا سکتا ہے ۔علما نے فارسی الفاظ مثلاً خوشبو اور گفتگو جیسے الفاظ کو گرانے کی سخت ممانعت کی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو وہ بے معنی ہو جاتے ہیں یا ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک طویل بحث ہے ۔آُپ عروض میں مہارت حاصل کرنے تک اور اس سطح پر صرف یہ یاد رکھیں کہ آخری واؤ کو گرایا جا سکتا ہے ۔
5– اسی طرح اگر کسی لفظ میں جس میں واؤ نون غنہ سے پہلے ہو ۔ جو عام طور پر جمع الجمع کی شکل میں ہوتا ہے۔۔جیسے لوگوں
عام طور پر اسے گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پھر لوگوں کا لفظ لوگُ میں بدل جائے گا ۔مگر لوگوں چونکہ جمع الجمع ہے اس لئے اسے گرانے پر کوئی پابندی نہیں.
حرفِ “یاء” کا بیان:-
حروف علت میں آخری حرف “ی” ہے۔جس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اس حرف کی اقسام کے لئے بھی علما نے اصطلاحات وضع کر رکھی ہین ۔جنہیں جاننا قطعی لازم نہیں مگر اُن کی آوازوں کو پہچاننا ضروری ہے۔بہر حال میں عمومی دلچسپی کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے نام لکھ دیتا ہوں:-
1–یائے معروفی
2–یائے مجہول
3–یائےلین
4–یائے مخلوطی
5–یائے ہندی
حرفِ ی کے سلسلے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ ایک مصرعے میں ی کو لمبی آواز دے کر یعنی پورےرکن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اورچھوٹی آواز سے بھی ۔یہ شعر یا مصرع کی بحر طے کرتی ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جائے۔
اب آئیے اس کو سقوط کی طرف:-
1–یہ طے ہے کہ اگر کوئی لفظ ی سے شروع ہوگا تو اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی۔
2–ہندی کے علاوہ دوسرے الفاظ کی درمیانی ی گرانے سے اگر اس لفظ کے معنی پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو بلا کھٹکے گرائی جا سکتی ہے
3– ہندی اسماء کی درمیانی ی کو گرانا لازم نہیں مگر مستحسن ہے۔
4–افعال کی ی کو گراتے ہوئے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ معنی پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔
5–ہر لفظ کی آخری ی کو بلا خطر گرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ معانی کو متاثر نہ کرے۔
6– بے بمعنی بغیر خی ی گرانا درست نہیں اسی طرح حرف ندا جیسے “اے” کی ی کو گرانا ممنوع ہے۔
7۔مرکب افعال، جیسے، پی گیا ، سی لیا— ان کی بھی اجازت ہونے کے باوجود گرانے سے احتراز کرنا چاہیے ـ
0 تبصرے