ذات برادری کی وبا پھیلانے والے مولوی نما جاہلوں سے بچیں ازقلم حضرت حافظ وقاری محمد شکیل نانپوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی


ذات برادری کی وبا پھیلانے والے

 مولوی نما جاہلوں 

سے بچیں

ازقلم حضرت حافظ وقاری محمد شکیل نانپوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی 

ذات برادری کی وبا پھیلانے والے   مولوی نما جاہلوں   سے بچیں  ازقلم حضرت حافظ وقاری محمد شکیل نانپوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی


آ ج کل امامت میں جائیے پوچھے گا آ پ کون برادر ہیں،جلسہ کی دعوت،میلاد کی دعوت ،یہاں تک کے روم کرایہ پر بھی لینے لوگ جاتے ہیں مسلمانوں کے پاس تو پوچھیں گے کون برادر ہیں۔

خان کو خان امام،شیخ کو شیخ امام،قریشی کو قریشی امام انصاری کو انصاری امام،منصوری کو منصوری امام،راعین کو راعین امام،دھوبی کو دھوبی امام ،حجام کو حجام امام،درزی کو درزی امام غرض کہ ہر قبائل کو اس کے قبیلے کا امام چاہیئے یہاں تک کہ جلسہ و میلاد میں بھی اپنی برادری کا شاعر مقرر چاہیئے خواہ وہ جاہل بشکلِ مولانا کیوں نہ ہو نماز کے  مسائل سے نا واقف کیوں نہ ہو ۔ اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اچھے شاعر و مقرر امام گھر میں رہ جاتے ہیں اور سید الجہلاء سب جبہ،صدری،جوتا،گمچھا میں ملبوس ہوکر میلاد ،جلسہ میں جاتے ہیں اور مسندِ امامت پر بھی فائز ہوتے ہیں۔

اور اس مرضِ ناسور نے خاص طور سے بہار و نیپال میں عوام تو عوام کچھ مولوی نما جاہل گنوار ہڑ دنگ مچا رکھا ہے ہر چیز میں گروپ بندی،جلسہ کی ٹھیکیداری کا یہ عالم ہے کہ لوگ خود سے پوسٹر چھپوالیتے ہیں خواہ محفل والے کہیں یا نہ کہیں۔ میں ان تعصب پرست جاہل مولویوں سے سوال کرتا ہوں کہ یہ ذات پات کہاں سے لائے آ پ ! یہ تو ابلیسی ذہن ہے ابلیس نے کہا تھا میں ناری ہوں آ دم خاکی ہیں۔یہ ابلیسی فکر کو بند کیجئیے اور اللہ و رسول کے فرمان پہ عمل پیرا ہو جائیں ورنہ دنیا میں بھی کوٹے جائیں گے اور آ خرت میں بھی۔


*اب آ ئیے میں ذرا قرآن و حدیث کی روشنی میں آ پ کے بھیجے میں کچھ بھیجوں کہیں برادری کا نشہ اتر جائے۔*


اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو انسانوں کے درمیان حسب و نسب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر فرق نہیں کرتا بلکہ تمام انسانیت کو ایک ماں باپ کی اولاد کہہ کر خوبصورت خطاب کرتا ہے، جیساکہ سورة النساء میں ارشاد باری ہے:


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾


 اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالٰی تم پر نگہبان ہے۔ (سورۃ النساء)


 انسانیت کے غمخوار جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انسانوں کو یہی پیغام دیا۔ 


لا فضلَ لعربيٍّ على عجميٍّ ، ولا لعجميٍّ على عربيٍّ ، ولا لأبيضَ على أسودَ ، ولا لأسودَ على أبيضَ - : إلَّا بالتَّقوَى ، النَّاسُ من آدمُ ، وآدمُ من ترابٍ : 

(شرح الطحاوية: 361 ، صحيح) 


 نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے کو کالے پر مگر تقوی کے ذریعے۔ 


سارے لوگ آدم کی اولاد ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اپنے حاکم کی ) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی ( غلام تم پر ) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور(گنجا)کے برابر ہو۔


اسلام کی ان ہی خوبی نے انہیں عرب کے دلوں کا دھڑکن بنادیا تھا۔ 

حضرت بلال حبشی، سلمان فارسی اور صہیب رومی رضی اللہ عنہم جیسے غلاموں کو مذہب اسلام نے گلے سے لگایا اور وہ مقام عطا کیا جس پر آج بھی دنیا نازاں ہے۔


اسلام نے دنیا کو مساوات کا درس دیا۔ سماجی اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کا خاتمہ کیا، برتری اور فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقوی کو قرار دیا۔ کون کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟ ، کس کا بیٹا ہے؟ ، کس کی بیوی ہے؟ کس کا باپ ہے؟ یہ چیزیں اسلام کی نظر میں بے حیثیت اور بے وقعت ہے۔ یہاں دنیا اور آخرت میں کامیابی کا معیار صرف اور صرف عمل صالح ہے۔


اللہ نے پیدائشی طور پر کسی کو فضیلت والا نہیں قرار دیا کہ کوئی صرف اس لئے فضیلت کا حامل ہے کیونکہ وہ فضیلت والے کے گھر پیدا ہوا ہے۔ 


زمانہ قدیم سے ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں کےساتھ رہے، اور اس زمانہ میں پاکستان بھی ہندوستان کا ہی حصہ تھا، اسی اعتبار سے انکے ساتھ مسلمانوں کے سماجی، سیاسی، فلاحی تعلق اور بات چیت دونوں طرف سے بلا تفاخر رنگ و نسل کے رہے


اسلام نے انسانوں کو ، شیخ، پٹھان، مغل جولاہا اور انصاری بناکر ذاتوں میں تقسیم نہیں کیا تھا۔ اونچ اور نیچ میں نہیں بانٹا تھا، اشراف اور ارذال کی کیٹگری (category) نہیں بنائی تھی۔ 


یہ لعنت خود لوگوں کے ذریعے لوگوں پر مسلط کی گئی یے جس میں آج مسلم سماج پوری طرح لت پت ہے ۔ عوام ہی نہیں خواص بھی پوری طرح اس میں گرفتار ہیں۔


اللہ پاک ہم سبھوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


المرتب : شکیل نانپوری

ذات برادری کی وبا پھیلانے والے   مولوی نما جاہلوں   سے بچیں  ازقلم حضرت حافظ وقاری محمد شکیل نانپوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے