جضور علیہ السلام کی خاطر یہ دنیا بنی ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی

 جضور علیہ السلام کی خاطر یہ دنیا بنی ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی


جضور علیہ السلام کی خاطر یہ دنیا بنی ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی


*جضور علیہ السلام کی خاطر یہ دنیا بنی ازقلم حافظ محمد نور عالم سرتاجی طالب علم جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد بارہ بنکی*

حضور علیہ السلام کی خاطر یہ دنیا بنی 


200 سال پہلے پیدا ا ہونے والے وہابی دیوبندی یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کو 40 سال کے بعد نبوّت ملی اس سے پہلے وہ نبی نہیں تھے معاذ اللّٰہ استغفر اللّٰہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان 40 چالیس سال کی عمر میں کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بنایا اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے ہی اس دنیا کو بنایا اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ۔نبی ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اللہ تعالیٰ قرآن پاک سورۃ آل عمران آیت 81 میں ارشاد فرماتا ہے۔وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ:ترجمہ: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے نبیوں سے وعدہ لیاحضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہُ الْكَرِیْم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کے بعد جس کسی کو نبوّت عطا فرمائی اُن سے سید الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عہد لیا اور انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ آگر ان کی حیات میں سرور کائنات ﷺ ہو تو وہ آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی مدد اور نصرت کرے ۔(تفسیر الخازن ”آل عمران۔ تحریر الآیات 81/جلد 1/صفحہ-825)

بنے دو جہاں تمہارے لئے


اللہ پاک کی عطا سے رحمتِ عالَمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک خصوصی شان یہ ہے کہ حضرت سیّدُنا آدم علیہ السّلام سمیت ساری مخلوق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے۔ [1]


4احادیثِ قُدسیہ :


اے عاشقانِ رسول! آسمان و زمین ، فَرِشتوں ، جِنّات اور جنّت سمیت تمام مخلوق کا رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے بنایا جانا کثیر روایات سے ثابت ہے۔ 4روایات ملاحظہ فرمائیے :


(1)حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی : يَا عِيْسٰى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَاْمُرْ مَنْ اَدْرَكَهٗ مِنْ اُمَّتِكَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِهٖ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَاخَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ یعنی اےعیسیٰ! محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ ہی جنّت و دوزخ بناتا۔ [2]


امام محمد بن عبدالباقی زُرقانی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں : وَهُوَ لَا يُقَالُ رَاْيًا فَحُكْمُهُ الرَّفْعُ یعنی اس طرح کی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی لہٰذا اس روایت کا حکم مرفوع روایت کا ہے(یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے یہ بات نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سُن کر بیان کی ہے)۔ [3]


امام محمد بن یوسف صالِحی شامی رحمۃُ اللہِ علیہ نے سیرتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے متعلق اپنی مایہ ناز کتاب “ سُبُلُ الْهُدىٰ وَالرَّشَاد فِيْ سِيْرَةِ خَيْرِ الْعِبَاد “ میں ایک پورے باب (Chapter) کا نام یہ رکھا : خَلْقُ آدَمَ وَجَمِيْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ لِاَجْلِهٖ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی حضرت آدم علیہ السّلام اور ساری مخلوق کا سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے تَخْلِیق کیا جانا۔ اس باب میں مذکورہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام جمالُ الدّین محمود بن جُملہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشاد فرمایا : حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سوا کسی اور نبی یا کسی فرشتے کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی۔ [4]


(2)حضرت سیّدُنا جبریلِ امین علیہ السّلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے : آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَاَهْلَهَا لاُعَرِّفَهُمْ كَرَامَتَكَ وَمَنْزِلَتَكَ عِنْدِيْ وَلَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا یعنی بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک آپ کی جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو تَخْلِیق نہ فرماتا۔ [5]


ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و منیٰ


لَوْلَاک والے صَاحبی سب تیرے گھر کی ہے[6]


(3)جب اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا آدم علیہ السّلام کو پیدا فرمایا تو آپ نےعرش پر نورِ محمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرما کر بارگاہِ خداوندی میں عرض کی : اے میرے رب! یہ نور کیسا ہے؟ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : هٰذَا نُوْرُ نَبِىِّ مِّنْ ذُرِّيَّتِكَ اِسْمُهٗ فىِ السَّمَاءِ اَحْمَدُ وَفِى الْاَرْضِ مُحَمَّدٌ لَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُكَ وَلَا خَلَقْتُ سَمَاءً وَلَااَرْضًا یعنی یہ آپ کی اولاد میں سے ایک نبی کا نور ہے جن کا آسمان (کے فرشتوں) میں (مشہور نام) احمدجبکہ زمین (والوں) میں (مشہور نام) محمد ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آپ کو پیدا کرتا اور نہ ہی آسمان و زمین کو بناتا۔ [7]


زمیں آسماں کچھ بھی پیدا نہ ہوتا


نہ ہوتی جو منظور خِلْقَت تمہاری[8]


(4)ایک حدیثِ قُدسی میں فرمایا گیا : لَوْلَاکَ مَاخَلَقْتُ سَمَاءً وَلَااَرْضًا وَلَا جِنًّا وَّلَا مَلَکًا یعنی اے محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان و زمین اور جِنّات و فَرِشتوں کو پیدا نہ فرماتا۔ [9]


دنیا کی کیا مجال :


امام شَرَفُ الدّین محمد بن سعید بُوصِیری رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے مشہورِ زمانہ قصیدۂ بُردہ شریف میں فرماتے ہیں :


وَکَیْفَ تَدْعُوْ اِلَی الدُّنْیَا ضَرُوْرَۃُ مَنْ


لَوْلَاہ ُلَمْ تَخْرُجِ الدُّنْیَا مِنَ الْعَدَمِ


یعنی دنیا کی ضرورتیں اس مبارک ہستی کو اپنی طرف کیسے بُلاسکتی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو دنیا عدم سے وُجُود میں نہ آتی۔


علّامہ سیِّد عمر بن احمد آفندی حَنَفی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اس شعر میں اس حدیثِ قُدسی کی طرف اشارہ ہے : لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْلَاک یعنی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ فرماتا۔ [10] اَفلاک (آسمانوں) سے مراد دنیا میں موجود ہر چیز ہے ، گویا جُز (Part) بول کر کُل مراد لیا گیا ہے۔ نیز اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ معراج کی رات جب سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے مقام پر پہنچ کر اللہ پاک کے لئے سجدہ کیا تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا : اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ خَلَقْتُہٗ لِاَجْلِکَ یعنی اے میرے پیارے! میں ہوں اور تم ہو ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس موقع پر اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کی : اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ تَرَکْتُہٗ لِاَجْلِکَ یعنی اے میرے مالک! میں ہوں اور تیری ذاتِ پاک ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا۔ نیز اس شعر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تابِع ہے ، آپ اور آپ کے اَصحاب کے لئے بنائی گئی ہے ، پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ یہ مبارک ہستیاں دنیا کے تابِع ہوجائیں یا دنیوی خواہشات سے مَغْلُوب ہوجائیں۔ [11]


امامِ اہلِ سنّت کے4فرامین :


اے عاشقانِ رسول! کئی علمائے اسلام نے رحمتِ کونَین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے باعثِ تخلیقِ کائنات ہونے کو بیان فرمایا ہے۔ چونکہ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے ایک ایسے عظیم عاشقِ رسول کے4 فرامین پیش کئے جاتے ہیں جن کا ہر ہر فرمان عین قراٰن و سنّت کے مطابق ہوتا ہے اور جن کی کتاب کا حوالہ دیکھ کر عاشقانِ رسول کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ دین و ملت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : (1)یہ ضرور صحیح ہے کہ اﷲ عزوجل نے تمام جہان حضورِ اَقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے لئے بنایا ، اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے (2)خُدائی (یعنی مخلوق) کی پیدائش بطفیلِ حضور سَیِّدِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم ہے۔ حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ، حضور تُخْمِ وُجود واصلِ موجود ہیں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم۔ [2] (3)حضرتِ حق عزجلالہ (اللہ پاک) نے تمام جہان کو حُضور پُرنور محبوبِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے واسطے پیدا فرمایا ، حُضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ، تو سارا جہان ذاتِ الٰہی سے بواسطۂ حُضور صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم پیدا ہوا یعنی حُضور کے واسطے حضور کے صدقے حضور کے طفیل میں۔ [3] (4)ہاں ہاں لَا وَاللہ ثُمَّ بِاللہ ایک دَفْعِ بَلا و حُصُول ِعَطا کیا (یعنی اللہ پاک کی قسم! پھر دوبارہ اللہ پاک کی قسم! صرف مشکلات کا خاتمہ اور عطاؤں کا حصول ہی نہیں بلکہ) تمام جہان(Universe) اور اس کا قِیام ، سب انہیں کے دَم قدم سے ہے۔ عالَم جس طرح اِبتدائے آفرِینِش (یعنی اپنی تخلیق کے معاملے) میں ان کا مُحتاج تھا ، یونہی بَقا میں بھی ان کا محتاج ہے۔ آج اگر ان کا قدم درمیان سے نکال لیں ابھی ابھی فَنائے مُطْلَق (یعنی سب کچھ ختم) ہوجائے۔ [4]


وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو


جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے


آخر کلام امام الکلام کلام الامام ملاحظہ فرمائیں 


زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے


چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لیے



دہن میں زباں تمہارے لئے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے


ہم آئے یہاں تمہارے لئے اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے



فرشتے خِدَم رسولِ حشم تمامِ اُمم غلامِ کرم


وجود و عدم حدوث و قدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے



کلیم و نجی مسیح و صفی خلیل و رضی رسول و نبی


عتیق و وصی غنی و علی ثنا کی زباں تمہارےلیے



اصالتِ کُل امامتِ کُل سیادتِ کُل امارتِ کُل


حکومتِ کُل ولایتِ کُل خدا کے یہاں تمہارے لیے



تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک


زمین و فلک سماک و سمک میں سکہ نشاں تمہارے لیے



وہ کنزِ نہاں یہ نور فشاں وہ کن سے عیاں یہ بزم فکاں


یہ ہر تن و جاں یہ باغِ جناں یہ سارا سماں تمہارے لیے



ظہورِ نہاں قیامِ جہاں رکوعِ مہاں سجودِ شہاں


نیازیں یہاں نمازیں وہاں یہ کس لئے ہاں تمہارے لیے



یہ شمس و قمر یہ شام و سحر یہ برگ و شجر یہ باغ و ثمر


یہ تیغ و سپر یہ تاج و کمر یہ حکمِ رواں تمہارے لیے



یہ فیض دیے وہ جود کیے کہ نام لیے زمانہ جیے


جہاں نے لئے تمہارے دیے یہ اکرمیاں تمہارے لیے



سحابِ کرم روانہ کیے کہ آبِ نِعَم زمانہ پیے


جو رکھتے تھے ہم وہ چاک سیے یہ سترِ بداں تمہارے لیے



ذنوب فنا عیوب ہبا قلوب صفا خطوب روا


یہ خوب عطا کروب زوا پئے دل و جاں تمہارے لیے



وہ کنز نہاں یہ نور فشاں وہ کُن سے عیاں یہ بزم فکاں


یہ ہر تن و جاں یہ باغ جناں یہ سارا سماں تمہارے لیے



سحاب کرم روا نہ کئے کہ آب نعم زمانہ پئے


جو رکھتے تھے ہم وہ چاک سئے یہ ستر بداں تمہارے لیے



ثنا کا نشاں وہ نور فشاں کہ مہرو شاں بآں ہمہ شاں


بسا یہ کشاں مواکب شاں یہ نام و نشاں تمہارے لیے



عطائے ارب جلائے کرب فیوضِ عجب بغیر طلب


یہ رحمتِ رب ہے کس کے سبب بَرَبِّ جہاں تمہارے لیے



جناں میں چمن ، چمن میں سمن، سمن میں پھبن ، پھبن میں دلہن


سزائے محن پہ ایسے مِنن یہ امن و اماں تمہارے لیے



کمال مہاں جلال شہاں جمال حساں میں تم ہو عیاں


کہ سارے جہاں بروز فکاں ظل آیئنہ ساں تمہارے لیے



خلیل و نجی ، مسیح و صفی سبھی سے کہی کہیں بھی بنی


یہ بے خبری کہ خلق پھری کہاں سے کہاں تمہارے لیے



یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرش علا بھی دور رہا


جہت سے ورا وصال ملا یہ رفعت شاں تمہارے لیے



بفور صدا سماں یہ بندھا یہ سدررہ اٹھا وہ عرش جھکا


صفوف سما نے سجدہ کیا ہوئی جو اذاں تمہارے لیے



یہ مرحمتیں کہ چکی متیں نچھوڑیں لتیں نہ اپنی گتیں


قصور کریں اور ان سے بھریں قصور جناں تمہارے لیے



فنا بدرت بقا بپرت ز ہر دو جہت بگرد سرت


ہے مرکزیت تمہاری صفت کہ دونوں کماں تمہارے لیے



اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئےخور کو پھیر دیا


گئےہوئےدن کو عصر کیا یہ تاب و تواں تمہارے لیے



صبا وہ چلے کہ باغ پھلے وہ پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے


لوا کہ تلےثنا میں کھلے رضا کی زباں تمہارے لیے


حافظ نور عالم سرتاجی✍️


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے