اَبْلَق گھوڑے سُوار: حضرتِ سیِّدُنا احمد بن اسحٰق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاقفرماتے ہیں : میرا بھائی باوجودِ غُربت رِضائے الٰہی کی نِیّت سے ہر سال بَقَرہ عید میں قربانی کیا کرتا تھا
حضرتِ سیِّدُنا احمد بن اسحٰق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاقفرماتے ہیں : میرا بھائی باوجودِ غُربت رِضائے الٰہی کی نِیّت سے ہر سال بَقَرہ عید میں قربانی کیا کرتا تھا ۔ اُس کے انتِقال کے بعد میں نے ایک خواب دیکھا کہ قِیامت برپا ہو گئی ہے اور لوگ اپنی اپنی قَبروں سے نکل آئے ہیں ، یکا یک میرا مرحوم بھائی ایک اَبْلَق( یعنی دو رَنگے چِتکُبرے ) گھوڑے پر سُوارنظر آیا ،اُس کے ساتھ اور بھی بَہُت سارے گھوڑے تھے ۔ میں نے پوچھا : یَا اَخِیْ! مَا فَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِکَ؟ یعنی اے میرے بھائی!اللہ تَعَالٰینے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ کہنے لگا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے بَخْش دیا۔ پوچھا: کس عمل کے سبب؟ کہا: ایک دن کسی غریب بُڑھیاکوبہ نیّتِ ثواب میں نے ایک دِرہم دیاتھا وُہی کا م آگیا۔ پوچھا: یہ گھوڑے کیسے ہیں ؟ بولا: یہ سب میری بَقَرہ عید کی قربانیاں ہیں اور جس پرمیں سُوار ہوں یہ میری سب سے پہلی قربانی ہے۔ میں نے پوچھا : اب کہاں کا عَزْم ہے؟ کہا: جنّت کا۔ یہ کہہ کر میری نظر سے اَوجَھل ہو گیا( دُرَّۃُ النَّاصِحِین ص۲۹۰) اللّٰہ عَزَّوّجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
{1}قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے(تِرمِذی ج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸)
{2} جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی ،تووہ آتَشِ جہنَّم سے حِجاب(یعنی رَوک)ہو جائے گی۔(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۳ص۸۴ حدیث ۲۷۳۶)
{3}اے فاطِمہ ! اپنی قربانی کے پاس موجودرہو کیونکہ اِس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔(اَلسّنَنُ الکُبری لِلْبَیْہَقِی ج۹ ص ۴۷۶ حدیث ۱۹۱۶۱)
{4}جس شخص میں قُربانی کرنے کی وُسعَت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔(اِبن ماجہ ج۳ص۵۲۹ حدیث۳۱۲۳)
کیا قرض لیکر بھی قربانی کرنی ہو گی؟:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !جو لوگ قربانی کی استِطاعت (یعنی طاقت ) رکھنے کے باوُجُود اپنی واجِب قربانی ادا نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ، اوَّل یِہی خسارہ(یعنی نقصان) کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنَّم کے حقدار بھی ہیں ۔فتاوٰی امجدیہ جلد3صَفحَہ315 پر ہے:’’ اگر کسی پر قربانی واجِب ہے اور اُس وَقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں توقَرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کر کے قربانی کرے۔‘‘
پُلصراط کی سُواری:
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار،بِاِذنِ پَرْوَرْدَگار دوعالَم کے مالِک ومُختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ خوشبو دار ہے : انسان بَقَرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قُربانی قِیامت میں اپنے سینگوں بالوں اور کُھروں کے ساتھ آ ئے گی اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قَبول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا خوش دِلی سے قُربانی کرو۔ (تِرمِذیج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸) مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، خاتِمُ المُحَدِّثین حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : قربانی، اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلّے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا۔(اشعۃُ اللّمعاتج۱ص۶۵۴) حضرتِ سیِّدُناعلّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَنّان فرماتے ہیں :پھر اس کے لئے سُواری بنے گی جس کے ذَرِیعے یہ شخص بآسانی پُلصراط سے گزرے گا اور اُس(جانور) کا ہرعُضو مالِک( یعنی قُربانی پیش کرنے والے) کے ہر عُضْو (کیلئے جہنَّم سے آزادی)کافِدیہ بنے گا ۔( مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۳ص۵۷۴تحتَ الحدیث ۱۴۷۰،مراٰۃ ج۲ ص ۳۷۵)
قُربانی کرنے والے بال ناخُن نہ کاٹیں :
مُفسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَنّان ایک حدیثِ پاک( جب عَشَرہ آ جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال و کھال کو بالکل ہاتھ نہ لگائے ) کے تحت فرماتے ہیں : ’’ یعنی جو امیر وُجُوباً یا فقیر نَفلاً قُربانی کا ارادہ کرے وہ ذُوالحِجّۃِ الحرامکا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخُن بال اور(اپنے بدن کی) مُردار کھال وغیرہ نہ کاٹے نہ کٹوائے تا کہ حاجِیوں سے قَدْرے(یعنی تھوڑی) مُشابَہَت ہو جائے کہ وہ لوگ اِحرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہربال، ناخُن (کیلئے جہنَّم سے آزادی) کافِدیہ بن جائے۔ یہ حکم اِسْتِحْبابِی ہے وُجُوبی نہیں ( یعنی واجِب نہیں ، مُسْتَحَب ہے اور حتَّی الامکان مُسْتَحَب پر بھی عمل کرنا چاہئے البتَّہ کسی نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو گناہ بھی نہیں اور ایسا کرنے سے قربانی میں خلل بھی نہیں آتا،قربانی دُرُست ہوجاتی ہے) لہٰذا قربانی والے کا حجامت نہ کرانا بہتر ہے لازِم نہیں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اچّھوں کی مُشابَہَت(یعنی نقل) بھی اچّھی ہے۔‘‘
غریبوں کی قُربانی:
مفتی صاحبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمزید فرماتے ہیں :’’ بلکہ جو قربانی نہ کر سکے وہ بھی اس عَشَرَہ (یعنی ذُوالحِجّۃِ الحرام کے ابتِدائی دس ایّام)میں حجامت نہ کرائے ، بَقَرہ عید کے دن بعد ِنَمازِ عیدحجامت کرائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ (قربانی کا)ثواب پائے گا۔‘‘(مِراٰۃُالمناجیحج۲ص۳۷۰)
مُستَحَب کام کیلئے گناہ کی اجازت نہیں :
یاد رہے! چالیس دن کے اندر اندر ناخُن تراشنا ، بغلوں اور ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا ضَروری ہے 40دن سے زیادہ تاخیر گناہ ہے چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :یہ (یعنی ذُوالحِجّہ کے ابتِدائی دس دن میں ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا)حکم صرف اِسْتِحْبابِی ہے ، کرے تو بہترہے نہ کرے تو مُضایَقہ نہیں ، نہ اس کو حکم عُدُولی(یعنی نافرمانی) کہہ سکتے ہیں ، نہ قربانی میں نَقص (یعنی خامی) آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عُذر کے سبب خواہ بِلا عُذر ناخُن نہ تراشے ہوں کہ چاند ذِی الْحِجّہ کا ہوگیاتو وہ اگر چِہ قربانی کا اراد ہ رکھتا ہو اِسمُسْتَحَب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن تراشوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے۔ فعلِ مُسْتَحَب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔(مُلَخَّص ازفتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص۳۵۳۔۳۵۴)(ابلق گھوڑے سوار،
COPY PASTE
جامعہ ام سلمہ و جامعہ گلشن مدینہ سرتاج العلوم دریاآباد میں ہر سال کی طرح امسال بھی بڑے پیمانے پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا گیا ہے خواہش مند حضرات جلد رابطہ کریں 9935132437 8009059597
0 تبصرے